حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کا تاثر اور پیغام
اپریل 3, 2019

’’اپنی بہنوں سے ‘‘

مولانا رحمۃ اﷲ علیہ کے قلم سے لکھا ہوا رضوان کااولین اداریہ

ﷲ تعالی نے جہاں مردوں کو بہت سی صلاحیتیں اور خصوصیتی عطافرمائی ہیں وہاں عورتوں کوبھی بے بہاصلاحیتوں اور قوتوں کامالک بنایا ہے اور بے شمار نعمتیں اور استعداد ودیعت فرمائی ہیں انہیں کے دم سے زندگی کاسکون وقرار ہے اور انہیں کی وجہ سے زندگی کاسوزوساز ہے، قوموں کے سدھارنے اور بگاڑنے، زندگی کو پرسکون اور پر آشوب بنانے میں ان کے کردار وعمل کو بڑا دخل ہے ؂

وجود زن سے ہے تصویرکائنات میں رنگ

اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزدروں

لیکن اسلام سے پہلے یہ تمام صلاحیتیں مردہ تھیں، اگر کہیں بھی تھوڑی بہت زندگی تھی تو وہ پست مقاصد پر صرف کی جارہی تھی، ساری دنیاکی سوسائٹی میں عورت کامظلوم طبقہ درد وکرب کی زندگی گزاررہاتھا، کسی سوسائٹی میں عزت وعظمت کی نگاہ سے نہیں دیکھاجاتا تھا عوت کے حقوق پامال کئے جاتے تھے، عورت ظلم وشقاوت کا شکار تھی یاعیش وعشرت کے متوالوں کے عیش کاسامان، اس کاوجود باعث شرم سمجھاجاتاتھا، بعض معزز سوسائٹی میں رواج تھا کہ لڑکی پیدا ہوتی تو دفن کردی جاتی، اگر زندہ رہ جاتی تو حیوانوں کی زندگی گزارنی پڑتی، اسلام جہاں سارے عالم کے لیے رحمت بن کر آیا۔وہ آیااور آکر اس نے تمام صلاحیتوں اور خصوصیتوں کوابھارا، تمام بندھن توڑے، غلامی سے آزاد کیا اور احساس کمتری کودور کیا، ان مسلمان عورتوں نے اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر سسکتی ہوئی انسانیت اور آفت کی ماری دنیا کی خدمت کی، اسلام کے پھیلانے میں پوراپورا تعاون کیا، سب سے بڑے فخر اور عزت کی بات یہ ہے کہ جب رسول اﷲ ﷺ نے کلمہ حق بلند کیا اور اسلام کی دعوت دی تو سب سے پہلے جس ذات نے لبیک کہا وہ اسی طبقہ کی معززخاتون حضرت خدیجہ ؓ تھیں۔اور پھر آخر عمرتک حضورﷺ کاساتھ دیا، حضرت عائشہؓ ام المومنین اسی طبقہ کی ایک فرد تھیں جنہوں نے گھر کی زندگی سے لے کر سیاسی اور علمی زندگی تک میں دوسروں کی رہنمائی کی اور پھر انہی دو پر انحصار نہیں ہے، رسول اﷲ ﷺ کے جاں نثاروں اور آپ کی قائم مقامی کرنے والوں میں اس طبقہ کی ہزاروں بیٹیاں شامل ہیں، دین کی راہ میں قربانی وہجرت دیکھنا ہوتوام سلمہ ام المومنین اور حضرت زینب بنت رسول اﷲ ﷺ پر نظر کرو، علمی اور سیاسی زندگی کاسبق لینا ہو تو حضرت عائشہؓ اور ام سلمہؓ سے سبق لو، بہادری اور جرات دیکھنا ہو تو حضرت صفیہؓ حضور کی پھوپھی اور حضرت اسماءؓ حضرت ابوبکر کی بیٹی پر نظرر ڈالو، صبر وتحمل مطلوب ہوتو حضرت ام سلیم ؓ کاواقعہ پڑھو۔جہاد میں شرکت اور مجاہدین کی خدمت وہمت کاحال دیکھناہوتو قبرص کی لڑائی اور ام حرام کی شرکت وشہادت کاحال پڑھو حضرت سمیہؓ حضرت ام شریکؓ کی اﷲ کی راہ میں قربانی اور شہادت، ام حکیم کی بہادری، ام عمارہؓ کی جرأت ومقابلہ، حضرت عائشہؓ وزینبؓ کی سخاوت وفیاضی، حضرت اسماءؓ بنت یزید کی قابلیت وعلمی شغف، ام حبیبہؓ کی حق گوئی وبے باکی، حضر ت ز ینبؓ کی عبادت وریاضت اور دوسری ہزاروں خواتین کی دین سے والہانہ محبت آج کی خواتین کے لیے درس عبرت ہے۔

حضرت خنساءؓ جو دور جاہلیت کی بہت بڑی شاعرہ تھیں اور بڑے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں یاتوان کاحال یہ تھا کہ جب دو بھائی قتل ہوتے ہیں تو روتے روتے زمانہ گذرگیا اور بڑا دلدوز مرثیہ کہا، لیکن جب اسلام کی غلامی میں آکر آزاد ہوئیں تو عالم یہ ہوگیاکہ جنگ قادسیہ میں اپنے چاروں عزیز جوان بیٹوں کوابھارا بھار کر جہاد میں شریک کیا اور ان کی شہادت پر خدا کا شکر ادا کیا۔

انہی جیسی ماؤں نے پھر بڑے بڑے زاہداسلام کے سپاہی دین کے لیے مرنے اور جینے والے اشخاص پیداکئے، انہی اولوالعزم خواتین کی گودوں میں پلے تھے وہ لوگ جو بعد میں فضل وتقوی کے لحاظ سے فضیل بن عیاض، ، شیخ عبدالقادرجیلانیؒ، خواجہ معین الدین چشتی، حضرت نظام الدین اولیاؒ اور علمی حیثیت سے امام ابوحنیفہ ؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمد ؒ، اور امام غزالیؒ کے نام سے مشہور ہوئے اور انہی صفات وخصوصیات کی مالک تھیں وہ خواتین جنہوں نے طارق بن زیادؒ، محمد بن قاسمؒ، یوسف بن تاشفین، صلاح الدین ایوبی، نورالدین زنگی اور محمد فاتح جیسے سلاطین اور قائد اسلام کو دئے جن کے عزم وقوت کے سامنے بڑے بڑے باجبروت بادشاہ پسینہ پسینہ ہوجاتے ہیں۔

یہ سلسلہ صدیوں تک چلا اور ایک ہزار سال تک ایسی مائیں اور بہنیں اور ان کی گودوں میں پلے ہوئے ایسے ایسے ناموراشخاص پیدا ہوتے رہے جن کے چند نمونے گذرچکے ہیں، لیکن مغربی تہذیب وتمدنن نے ان صلاحیتوں اور خصوصیتوں کے رخ کو بدل کر سطحی اور کھوکھلے راستہ پر ڈال دیا یہ تہذیب آئی اور اپنے ساتھ بداخلاقی اور بے حیائی کا ایک طوفان لائی، فحش لٹریچر، عریاں کتابیں اور رسالے، فلمی گانے اور سنیمابینی نے بازاروں سے لیکر گھر کے اندرتک رسائی پیداکی اور قلب ودماغ کی دنیا کوالٹ کر رکھ دیا، اور اس کے نتیجے میں بے حیائی بے چینی، افتراق، کشمکش اور ہزاروں فاسد سوسائٹی میں سرایت کرگئے۔

ماؤں اور بہنوں کی عادات وفضائل طرززندگی اور رہائش گفتگو اور اعمال کے اثرات لازمی طور پر بچوں کے معصوم دماغوں میں پرورش پاتے ہیں، اگرمائیں اور بہنیں خود نیک ہوں گی ان کی نگاہ ودل پاک ہونگے، ان کی زندگی ستھری ہوگی، ان کے اعمال وکردار اچھے ہونگے توبچے بھی ان ہی اعمال وکردار کے حامل ہونگے، اس لیے ماؤں اور بہنوں پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ہے ’’کلکم راع وکلکم مسؤل عن رعیتہ‘‘(تم میں ہرایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کے ماتحتوں کی بابت سوال ہوگا)، ان میں کسی ایک کی خصوصیت اور کسی ایک کااستثناء نہیں ہے عورتوں کی ذمہ داری اس لیے زیادہ ہے کہ بچوں اور بچیوں کی پہلی تربیت گاہ اور تعلیم گاہ ان کی گود ہیں اور مجلسیں ہیں، آج جب کہ فحش وعریاں لٹریچر گندے وحیاسوز ناولیں اور افسانے دلچسپ سے دلچسپ طریقہ سے تیار کئے جارہے ہیں اور بڑی قوت وطاقت ان کو گھر گھر پہنچارہی ہے اور شریف زادیوں اور حیادار بیٹیوں کے ہاتھوں میں بڑی آسانی سے یہ ناقابل برداشت لٹریچر پہنچ رہا ہے اور اس کازہر دل ودماغ میں پیوست ہورہا ہے اس زہر کے تریاق کاکیاسامان بھم پہنچایاجاتا ہے، صرف چند کتابیں وہ بھی خشک غیر دلچسپ چندرسالے اور ماہنامے، جن کاگھر گھر پہنچنا مشکل اور بعض دفعہ ناممکن ہوتا ہے۔خداکاشکر ہے کہ اس کااحساس دیندار طبقوں میں پیداہوگیا ہے اور وہ ایک عرصہ سے اس کی کوشش کررہے ہیں اور طاقت بھر ہاتھ پیر ماررہے ہیں اور بعض حلقوں سے اصلاحی اور مستندرسالے نکلنے لگے ہیں اور وہ ایک حدتک کامیاب بھی ہیں، مگر اس سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ اس کوشش کوزیادہ سے زیادہ بڑھانے کی ضرورت ہے۔

ایک دورسالوں سے کام نہیں چل سکتا، بداخلاقی کی ہمہ گیر تحریک اورفحش لٹریچر کے اس سیلاب کے مقابلے کے لیے جو آج بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے جو بھی کوشش کی جائے اس کی ہمت افزائی کرتے ہوئے اس کو پھیلانے کی کوشش کرنا اخلاقی ودینی فرض ہے، اسی مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے اس رسالہ کااجراعمل میں لایاگیا ہے۔اگر چہ حالات انتہائی ناسازگار ہیں اور ہرطرح کی دشواریاں حائل ہیں لیکن عزم وعمل کی راہ میں یہ چیزیں رکاوٹ نہیں بن سکتیں۔ہم آپ حضرات سے خصوصا ان خواتین سے جو موجودہ اخلاقی اور دینی گراوٹ کو شدت سے محسوس کرتی ہیں اور آج کی حیاسوز سوسائٹی اور بے خداماحول سے پریشان ہیں، پرزور درخواست کرتے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ تعاون کریں، ہم اس بات کی پوری کوشش کریں گے کہ رسالے میں مفید سے مفید اور ٹھوس سے ٹھوس مضامین شائع ہوتے رہیں۔ اﷲ تعالی ہماری کوشش اور آپ کے تعاون سے نیک مقاصد میں کامیاب فرمائے۔السعی منا والاتمام من ﷲ