’’اپنی بہنوں سے ‘‘
اپریل 24, 2019

حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کا تاثر اور پیغام

حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کا تاثر اور پیغام

 حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی ؒ کو رسالہ ’’رضوان‘‘ سے اس قدر تعلق تھا کہ جب ان کو یہ محسوس ہوا کہ رضوان مالی دشواریوں کی وجہ سے کہیں بندنہ کرنا پڑجائے تو انہوں نے اس رسالہ سے اپنے تعلق اور لوگوں کے لیے اس کی ضرورت کو باور کراتے ہوئے ایک طاقتور موثر مضمون سپرد قلم کیا۔وہ نظر ناظرین کیا جاتا ہے:

’’ع اس شمع کو گل نہ ہونے دیجئے

ساری دنیا کے مسلمان عمومیت کے ساتھ اور برصغیر ہند کے مسلمان خصوصیت کے ساتھ جس اخلاقی زوال، ذہنی انتشار اور معاشرتی خلفشار کے نازک دور سے گزررہے ہیں اس پر جن حضرات کی نظر ہے اور مسلمانوں کا موجودہ معاشرہ ان کے سامنے ہے، وہ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ صورت حال کا ذمہ دار زیادہ تر وہ بگاڑ ہے جو طبقہ نسواں میں تیزی کے ساتھ پھیلتا جارہا ہے، درحقیقت اس معاشرہ یاسوسائٹی میں اس اخلاقی اور دینی زوال کی رفتار اس وقت سے بہت تیز ہوگئی اور نمایاں طریقہ پر سب کو نظر آنے لگی جب سے مسلمان خواتین اور مسلمان بچیوں اور لڑکیوں میں مغربی تہذیب وتعلیم نے اپنااثر دکھایا، غیر دینی، بلکہ مخالف دین اور مخرب اخلاق لٹریچر، ناولوں اور ترقی پسند رسالوں اور پرچوں نے ان کے دل ودماغ کو متاثر کیا، خدا کا خوف، آخرت کی فکر، حقوق وفرائض کاخیال اور اپنے جذبہ خدمت، انس ومحبت اور صبر وقناعت سے، اپنے گھر کو نمونۂ جنت بنانے سے ان کی توجہ ہٹ کر باہر کی دنیا سے لطف ومسرت حاصل کرنے کی طرف مبذول ہوگئی اس وقت سے نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کی خانگی زندگی کو ایک تپ کہنہ لاحق ہوگیا، بلکہ خالص دینی دعوت و اصلاح کے راستے میں بھی ایسی سخت رکاوٹیں اور مشکلات پیش آئیں جن کا عبور کرنا بڑی سے بڑی طاقتور ودینی تحریک کے لیے ناممکن بن گیا، اس لیے کہ باہر کی تمام کوششوں اور جد وجہد پر گھریلو زندگی کاانتشار اور گھر والوں کی بے راہ روی، گھنٹوں اور منٹوں میں پانی پھیردیتی ہے، پھر وہ بچے جو گھر کی زندگی اور تربیت سے برے اثرات قبول کرلیتے ہیں، کوئی نظام تعلیم ان کی اصلاح نہیں کرسکتا، اگر ماؤں اور گھر والوں کا تعاون کسی دینی درسگاہ یا اخلاقی تحریک کو حاصل نہیں تو اس کی اپنی کوششوں میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔

ان سب حقیقتوں کے پیش نظر عرصہ سے اس کی سخت ضرورت محسوس ہورہی تھی کہ مسلمان خواتین اور مسلمان لڑکیوں کے لیے کوئی ایسا رسالہ نکالاجائے جو ان کے دل ودماغ کے لیے صحیح دینی غذا مہیا کرے، ان کے دلوں میں دین کی محبت وعظمت اور آخرت کی اہمیت اور فکر پیدا کرے، ان کے سامنے نیک بیبیوں اور باخدا عالم وفاضل، عابد وزاہد مسلمان عورتوں کی زندگی کے نمونے اور کارنامے پیش کرے اور مسلمان لڑکیوں اور عورتوں کو ان کا بھولا ہوا سبق اور زندگی کا وہ رخ یاد دلاتا رہے، جو نگاہوں سے اوجھل ہوتا جارہا ہے۔

اب بھی خدا کے فضل سے سینکڑوں کی تعداد میں ایسے مسلمان گھرانے ہیں جو ابھی اس سیلاب میں پورے طور پر بہے نہیں، ان کے ضمیر اور دلوں کی روشنی ابھی بجھی نہیں، البتہ مناسب حال دینی کتابیں اور دینی رسائل نہ پانے کی وجہ سے ان خاندانوں کے سرپرست اور گھروں کی نیک طبیعت اور خدا ترس مائیں بچوں کی تعلیم وتربیت میں بے بسی محسوس کرتی ہیں اور خود بھی ایسی کتابوں اور رسائل کے لیے مشتاق رہتی ہیں، اس ضرورت کو محسوس کر کے میرے گھرانے کے چند افراد نے دسمبر ۱۹۵۶؁ء سے رسالہ رضوان جاری کیا۔جس کو شروع سے اس وقت تک بہت سے دیندار اور باحمیت مسلمانوں کی تائید وسرپرستی اور بزرگوں کی دعائیں حاصل رہیں، مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ اس نے اپنے محدود دائرہ میں رہ کر گذشتہ اکتالیس (۴۱)سال میں بڑا مفید کام انجام دیا(۱)اور اس کے پڑھنے والوں کو اس سے ایک ذاتی اور جذباتی تعلق پیدا ہوگیا اس کے پڑھنے سے بہت سی عورتوں نے اپنی غلط زندگی سے توبہ کی اور اپنے بچوں کی دینی واخلاقی تعلیم کاانتظام کیا اور اس کو ایسے گھرانوں تک پہنچایا جہاں تک اس کی رسائی مشکل تھی، یہاں تک کہ ہندوستان وپاکستان کے علاوہ امریکا اور یوروپین ممالک، عرب اور افریقہ میں بسنے والے بعض ہندوستانی وپاکستانی مسلم گھرانوں میں وہ مقبول ہونے لگا اس سے تعلق رکھنے والے بھائیوں اور بہنوں کی ہمت افزائی سے اس نے کئی خصوصی شمارے بھی نکالے جو بہت مقبول ہوئے اور بہت جلد نایاب ہوگئے۔

ادھر کچھ عرصہ سے مختلف اسباب کی بنا پر سخت مالی مشکلات سے دو چار ہے جس کی وجہ سے اس کے ذمہ دار مجبور ہوکر اس کے بند کرنے کے مسئلہ پر غور کرنے لگے، لیکن میں نے اور میرے بعض دوستوں اور بزرگوں نے نیز’’رضوان‘‘سے ذاتی اور جذباتی تعلق رکھنے والے بھائیوں نے اور بہنوں نے زبانی خطوط کے ذریعہ ان کو اس ارادہ سے باز رکھا کہ یہ کسی ملت کے زوال کی بہت بری علامت اور کسی ملک کے باشندوں کے لیے بڑی بدشگونی کی بات ہے کہ …………ایک ایک کرکے ان کے چراغ گل ہوتے اور ان کے ادارے بند ہوتے چلے جائیں، یہ ملت کی نااہلی، پست ہمتی مردہ دلی اور بے حمیتی کی نشانی ہے۔

ہمارے حوصلہ دلانے سے رضوان کے ذمہ داروں نے ہمت کی ہے کہ وہ ایک بار پھر کوشش کریں گے اور رسالہ کو جاری رکھیں گے، اب ہمیں اپنے سب دوستوں اور ان سب لوگوں سے پوری امید ہے جن کے دلوں میں دین کادرد اور اپنی بچیوں اور بہنوں کے اخلاقی اور دینی رجحان کی فکر ہے کہ وہ اس رسالہ کو بند ہونے سے بچائیں گے اور اس کار خیر کے جاری رکھنے بلکہ اس کو وسعت وترقی دینے میں ہمارا ہاتھ بٹائیں گے۔

ایسے ہمدردوں کی تھوڑی سی کوشش سے اس رسالہ کو نئی زندگی مل جائے گی اور دین واخلاق کی آواز مسلمان گھرانوں میں پہنچتی رہے گی۔

امید ہے کہ اس اپیل کے پڑھنے والے اس کو اپناذاتی کام اور دین واخلاق کی خدمت سمجھ کر اس کے لیے دامے درمے سخنے، قدمے کوشش کریں گے اور رضوان کی توسیع واشاعت اور اس کو مسلم گھرانوں تک پہنچانے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی فکر کریں گے۔وماتوفیقی الا باﷲ۔ 

        ابوالحسن علی ندوی‘‘