ہمارے متعلق

۱۹۵۶ء میں اس بات کے تقاضہ نے زور پکڑا کی خواتین کی تربیت واصلاح کا میدان بالکل خالی پڑاہے ان میں کام کرنے کا سب سے مؤثر طریقہ یہ ہے کہ ایک رسالہ کااجرا ہو جو ہر ماہ پابندی سے نکلے اور اس کی خریدار عورتیں بنیں، عورتوں میں جیسے جیسے دین راسخ ہوگا ویسے ان کی اولاد دین والی بنیں گی


مولانا سید محمد الحسنی جو آپ کے ماموں زاد بھائی اور برادر نسبتی تھے اس کے زیادہ محرک اور داعی تھے اور ان کو اپنے تعاون کا پور ایقین دلاتے تھے وہ ایک سال پہلے عربی مجلہ ’’البعث الاسلامی‘‘کے نام سے نکال کر عربوں کو دعوت فکر وعمل دینے کاکام اپنے پرجوش اداریوں اور اپنے عم مکرم مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی کے فکر انگیز مضامین ومقالات سے انجام دینا شروع کرچکے تھے، ان کے ساتھ لکھنے والوں کی ایک جماعت تھی جس میں ان کے بھائیوں مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی، مولانا سید محمدواضح رشید حسنی ندوی کے علاوہ خاص رفقاء واحباب میں مولانا ڈاکٹر سعیدالرحمن اعظمی ندوی، مولانا ڈاکٹر سید محمد اجتباء ندوی، ڈاکٹر محمد راشداعظمی اور دوسرے لوگ تھے یہ سب مولانا سید محمد ثانی حسنی کے بھی معاون ہوتے۔ دسمبر ۱۹۵۶ءمیں پہلاشمارہ لکھنو سے اسی مقام اور گھر سے نکلا، جس مقام اور گھر سے ایک سال قبل البعث الاسلامی نکلا تھا اور ان ہی بزرگوں کی سرپرستی میں نکلا جن کی سرپرستی میں البعث الاسلامی نکلا تھا، یعنی مولانا ڈاکٹر سید عبدالعلی حسنی ندوی اور مولاناسید ابوالحسن علی حسنی ندوی۔


خواتین کا قلمی اشتراک و تعاون خواتین میں ان کے علاوہ ان کی والدہ اور مولانا محمد ثانی حسنی کی نانی مخدومہ خیرالنساء بہتر صاحبہ کے اشعار، اقوال، ہدایات اور عورتوں کے تعلق سے دوسری تربیتی چیزیں ہوتیں، مولانا محمد ثانی حسنی کی والدہ معظمہ سیدہ امۃ العزیز صاحبہ بھی کچھ نہ کچھ لکھتیں اور ان تینوں اور مولانا محمد ثانی حسنی کی اہلیہ کا سلسلہ وار مضمون ’’میری بے زبان استانیاں‘‘بھی شائع ہوا، اور بعض دوسری دین وملت کا درد رکھنے والی خواتین بھی اس میں حصہ لیتیں جن میں خاص طور سے بیگم سید اصغر حسین مرحوم کانام قابل ذکر ہے ان مضامین نے عورتوں کے اندر مطالعہ کا جذبہ پیداکیا اوربڑی دینی رہنمائی کاکام کیا۔ مولانا محمد ثانی حسنی کی اہلیہ اور ان کی بہنیں یعنی مولانا ڈاکٹر سید عبدالعلی حسنی کی سبھی صاحبزادیاں بھی اپنے مضامین بھیجتیں۔اور مولانا محمد ثانی حسنی ان کو اہمیت دیکر شائع کرتے، گھر کے ان لڑکوں اور لڑکیوں یعنی طلبہ وطالبات نے بھی قلم اٹھائے اور بہت کم عمری سے مضامین لکھنے لگے، جن میں ذرا بھی اس کاشوق اور چنگاری تھی۔ رضوان کے نکلنے سے پہلے امرتسرو جالندھر سے ایک رسالہ’’مسلمہ‘‘عورتوں کے لیے نکلا کرتاتھا، اس میں بھی ڈاکٹر سید عبدالعلی حسنی صاحب کی صاحبزادیاں اور امۃ اﷲ تسنیم صاحبہ مضامین لکھ لکھ کر بھیجاکرتی تھیں